بیشک آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں اور شب و روز کی گردِش میں عقلِ سلیم والوں کیلئے (اللہ کی قدرت کی) نشانیاں ہیں یہ وہ لوگ ہیں جو (سراپا نیاز بن کر) کھڑے اور (سراپا ادب بن کر) بیٹھے اور (ہجر میں تڑپتے ہوئے) اپنی کروٹوں پر (بھی) اللہ کو یاد کرتے رہتے ہیں اور آسمانوں اور زمین کی تخلیق (میں کارفرما اُس کی عظمت اور حسن کے جلوؤں) میں فکر کرتے رہتے ہیں۔ (پھر اُس کی معرفت سے لذّت آشنا ہوکر پکار اُٹھتے ہیں) اے ہمارے رب! تو نے یہ (سب کچھ) بے حکمت اور بے تدبیر نہیں بنایا۔ تو (سب کوتاہیوں اور مجبوریوں سے) پاک ہے، ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچالے۔۔۔آمین
(آل عمران، 3 : 190، 191)
بندۂ مومن آسمانوں اور زمین کی خِلقت کے باب میں غور و فکر کرے اور یہ جاننے میں کوشاں ہو کہ اِس وُسعتِ اَفلاک کا نظام کن اُصول و ضوابط کے تحت کارفرما ہے اور پھر پلٹ کر اپنی بے وُقعتی کا اَندازہ کرے۔ جب وہ اِس وسیع و عریض کائنات میں اپنے مقام و مرتبہ کا تعین کرلے گا تو خودہی پکار اُٹھے گا : ’’اے میرے ربّ! تو ہی میرا مولا ہے اور تو بے عیب ہے۔ حق یہی ہے کہ اِس وُسعتِ کائنات کو تیری ہی قوت وُجود بخشے ہوئے ہے۔ اور تو نے یہ عالم بے تدبیر نہیں بنایا‘‘۔
مذکورہ بالا آیتِ کریمہ کے پہلے حصہ میں ’خالق‘ اور دُوسرے حصے میں ’خَلق‘ کی بات کی گئی ہے، یعنی پہلے حصے کا تعلق مذہب سے ہے اور دُوسرے کا براہِ راست سائنس اور خاص طور پر علمِ تخلیقیات
سے ہے۔
